نور آفیشل

9/11/22

استاد کا مقام


اسلام نے استاد کے بہت سے حقوق متعین کئے ہیں جن کا مختصر جائزہ پیش ہے
اُستاد اور شاگرد کے باہمی حقوق
خاندان یا کنبہ کے بعد اسلامی نقطہ نظر سے مکتب معاشرے کی ایک اہم منزل ہے یہاں ماں کی گود کے بعد گھر کے دوسرے افراد کی شفقت و محبت کے بعد ایک مسلمان بچے کے تعلقات دوسرے بچوں اور اساتذہ سے پیدا ہوتے ہیں یہی وہ مقام ہے جہاں سے وہ تربیت کیساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتا ہےاور جو کچھ وہ یہان سے حاصل کرتا ہے وہ اس کا مظاہرہ گھر سے بھی کرتا ہے درس گاہ میں بھی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام گھر کے بعد بچے کیلئے مکتب کے ماحول کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے اور یہی وہ مقام ہیں جہاں سے وہ علم کی روشنی حاصل کرتا ہے
اسلام میں علم کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے یہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسان پہلے اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہےاسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی اس میں پہلا حکم علم کے بارے میں تھاعلم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں حضور ﷺ کو یہ دعا سکھائی گئی رب زدنی علما ، اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما اور بحیثیت نبی آپ ﷺ کے وظائف میں سے ہےوَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ ُزَكِّيْهِمْ، اورآپ ﷺان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے رہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے رہیں آپ ﷺ کا منصب معلم کا بھی ہے بلکہ آپ ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی تعلیم قرار دیا انا بعثت معلما ، بیشک میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم ، علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے
مکتب وہ جگہ ہے جہاں لکھنا اور پڑھنا سکھایا جاتا ہے عام استعمال میں مکتب کا لفظ مدرسہ کا ہم معنی ہے اس طرح ان دونوں کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ ادارہ جہاں لکھنا اور پڑھنا سکھایا جاتا ہو
مکتب جہالت کا علاج ہے اور انسانی تہذیب وتمدن کا نکتہ آغاز
مکتب کے ذریعے سے اچھے اور نیک سیرت اساتذہ کی صحبت میسر آتی ہے جس سے طالب علم کے قلب و ذہن کی دنیا ہی بدل جاتی ہے اور اس کی زندگی نئے انداز اختیار کرتی ہے
مکتب میں اساتذہ کے علاوہ دوسرے طالب علموں سے مراسم بڑھتے ہیں سب ایک دوسرے سیکھتے ہیں ہم جماعتوں کی ایک مستقل برادری وجود میں آتی ہے جس کے اثرات بڑے دیرپا ثابت ہوتے ہیں
مکتب میں رہ کر بچہ آداب سیکھتا ہے جو عملی زندگی میں اس کے بڑے کام آتے ہیں اور یہاں وہ وقت کی پابندی بھی سیکھتا ہے
مکتب کی زندگی سے طالب علم کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتی ہےاور طالب علم کو نظم و ضبط سکھاتی ہے جو آئندہ زندگی میں اس کے بڑے کام آتا ہے اور وہ ہر کام کو ایک سلیقہ اور حسن ترتیب سے انجام دیتا ہے
مکتب تعلیم کا ایک ذریعہ ہے،جس میں اچھی سیرت سازی اور تربیت ہے۔جہان رہ کر انسان علم حاصل کرتا ہے اور علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔اس لحاظ سے تعلیم وتربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ کسی بھی مکتب میں نصاب تعلیم کے تین اہم عناصر ہوتے ہیں 1 اساتذہ 2 شاگرد 3 طالب علم ساتھی ، ان تینوں کے آپس میں کچھ فرائض اور کچھ حقوق بھی ہیں ، ان کی ادائیگی کی وجہ سے مکتب کا ماحول پرسکون رہتا ہے اور جس مقصد کیلئے بچے مکتب میں آتے ہیں وہ پورا ہوتا ہے
لیکن خاص طور پر تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر اُستاداورشاگرد ہیں۔ معلّم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں، سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔
بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس فریضہ ہے ،اسی اہمیت او ر تقدس کے پیش نظر اُستاد اور شاگرد دونوں کی اپنی اپنی جگہ جدا گانہ ذمہ داریاں ہیں۔ اُنہیں پورا کرنا ہر دو جانب کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کیا جائے تو پھر تعلیم بلاشبہ ضامنِ ترقی ہوتی اور فوزوفلاح کے برگ و بار لاتی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ حقوق استاد پر عائد ہوتے ہیں جبکہ بعض شاگرد پر
معاشرے میں استاد کا مقام
استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے اس لیے اسلام نے معاشرے میں اسے بہت حیثیت دی ہے اور اس کی بے حد عزت واحترام کی تاکید کی ہےحضور ﷺ نے استاد کو حقیقی باپ سے بھی زیادہ مرتبہ دیا ہے آپ ﷺ کا ارشاد ہے دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا باعث ہوا دوسرا وہ جس نے اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کردی اور تیسرا وہ جس سے تم نے علم حاصل کیا اور ان میں بہترین باپ تمہارا استاد ہےصحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپس میں جس سے کچھ سیکھتے اسے استاد کا درجہ دیتے اور اس کا ادب و احترام کرتے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس سے میں نے ایک حرف بھی سیکھا ہے میں اس کا غلام ہوں اسے اختیار ہے خواہ وہ مجھے فروخت کردے یا آزاد کردے اور چاہے تو غلام بناکر رکھے
ایک شاعر کہتا ہے
رایت احق الحق حق المعلم واوجبہ حفظا علی کل مسلم
لقد حق ان یھدی الیہ کرامۃ لتعلیم حرف واحد الف درھم
سب سے بڑا حق تو معلم کا ہے جس کی رعایت تمام مسلمانوں پر فرض ہے واقعی وہ شخص جس نے تم کو ایک لفظ سکھادیا اس کا مستحق ہے کہ ہزار درہم اس کے لئے ہدیہ کئے جائیں بلکہ اس کے احسان کے مقابلہ میں تو ہزار درہم کی بھی کوئی حیثیت نہیں ، آداب المتعلمین
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اسلام میں علم کی کیا حیثیت ہے اور استاد کا کتنا درجہ ہے ؟؟
شاگرد پر اُستاد کے حقوق
استاد کے اس مقام اور مرتبہ کی وجہ سے اسلام نے استاد کے بہت سے حقوق متعین کیے ہیں لیکن سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ طالب علم نبیٔ کریمﷺ کے اس ارشاد مبارک کو مدنظر رکھے کہ آپﷺنے فرمایا: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیرَنَاوہ ہم میں سےنہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت واحترام نہ کرے۔
اس لیے شاگرد پر لازم ہے کہ وہ اُستاد کا احترام کرے اور اس کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بھی اپنے آپ کو بچائے۔استاد معلّم و مربی ہونے کے لحاظ سے باپ کے درجے میں ہوتا ہے، آپﷺ نے فرمایا: إنَّمَا أَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ،أُعَلِّمُکُمْ میں تمہارے لیے بمنزلۂ والد ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔
چنانچہ روحانی ماں باپ کی تکریم و تعظیم کیجیے۔ اُستاد سے آمرانہ اسلوبِ گفتار سے پرہیز کریں، اس کے سامنے اَدب اور شائستگی سے بیٹھیں، اس کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کریں۔طالب علم کو تکبر و بڑائی سے دوررہنا چاہیے، اپنے اندر عجز واِنکسارپیدا کرنا چاہیے۔اَمیر المؤمنین عمر بن خطاب فرماتے ہیں:تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، وَتَعَلَّمُوا لَهُ السَّکِینَةَ وَالْوَقَارَ، وَتَوَاضَعُوا لِمَنْ تَتَعَلَّمُونَ مِنْهُ وَلِمَنْ تُعَلِّمُونَه، وَلاَ تَکُونُوا جَبَابِرَة َالْعُلَمَاءِ علم حاصل کرو۔ اس کے لئے سکینت ووقار بھی سیکھو۔ جن سے علم حاصل کرتے ہو اور جنھیں سکھاتے ہو اُن کے لیے تواضع اورعاجزی اختیارکرو۔جبر کرنیوالے علما مت بنو۔
اَساتذہ کے ساتھ اَدب واحترام کاایک سبق آموز واقعہ سیدنا عبداللہ بن عباس کا ہے، جسے امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں ذکر کیا ہے۔ نقل کرتے ہیں:
ایک دفعہ سیدنا زید بن ثابت جو قرآن کے حافظ اور کتاب و سنت کے بہت بڑے عالم تھے، نے ایک جنازہ پڑھایا۔ واپسی کے لیے سواری لائی گئی تاکہ آپ اس پر سوار ہو جائیں، عبداللہ بن عباس آگے بڑھے اور سواری کی رکاب تھام لی،زید بن ثابت نے کہا: رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی! آپ ایسا نہ کریں۔ ابن عباس نے فرمایا: هٰكَذَا یُفْعَلُ بِالْعُلَمَاء وَالْکُبَرَاء جی نہیں، میں یہ رکاب ضرور پکڑوں گا، کیونکہ علما اور بڑوں کا یہ حق ہے کہ ان سے ایساہی برتاؤ کیا جائے۔
اُستاد کا کیا مقام ومرتبہ ہے؟ یہ امام شعبہ سے پوچھئے، فرماتے ہیں: کُلُّ مَنْ سَمِعْتُ مِنْهُ حَدِیثًا، فَأَنَا لَه عَبْد جس سے میں نے ایک حدیث پڑھی ہے، وہ میرا آقا اور میں اس کا غلام ہوں۔ پس جب طالب علم اپنے اُستاد کا حد درجہ احترام کرے گا، تب ہی اسے علم کی بیش قیمت دولت حاصل ہوگی۔ اگر طالب ِعلم بدخواہ اور بے ادب ہے اور اپنے استاد کیلئے تکلیف کا باعث ہے تو وہ علم کی برکت سے محروم ہی رہے گا اور برابر کوششوں کے باوجود علم کی دولت سے متنفع نہیں ہوسکتا۔ ایک شاعر نےخوب کہاہے
ان المعلّم والطبیب کلاھما لا ینصحان اذا ھما لم یکرما
فاصبر لدائک ان جفوت طبیبہ واقنع بجھلک ان جفوت معلما
معلّم اور طبیب کی جب تک توقیر و تعظیم نہ کی جائے وہ خیر خواہی نہیں کرتے۔ بیمارنے اگر طبیب کیے ساتھ بدعنوانی کی تو اس کو ہمیشہ بیماری ہی پر قائم رہنا پڑے گا اور اگر شاگرد نے اپنے استاد کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو وہ ہمیشہ جاہل ہی رہے گا۔
اسلام نے استاد کے بہت سے حقوق متعین کئے ہیں جن کا مختصر جائزہ پیش ہے
استاد کا شاگرد پر پہلا حق یہ ہے کہ وہ اپنے استاد کے احسان کو تازندگی یاد رکھے اور اس کے حکم سے سرتابی نہ کریں استاد کا درجہ والد سے کسی طرح بھی کم نہیں کیونکہ استاد اس کی روحانی اور ذہنی تربیت کا ذمہ دار ہوتا ہےاستاد اس بات کا حق رکھتا ہے کہ شاگرد کو اگر وہ اشارۃ بھی کوئی بات کہے تو وہ اس کے حکم کی تعمیل کرے
استاد کا اپنے شاگردوں پر دوسرا یہ حق ہے کہ وہ اس کی موجودگی میں آداب مجلس کا خیال رکھیں یہ آداب شاگرد کو مجلس نبویﷺ سے سیکھنے چاہیئں کیونکہ آپ ﷺ کا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کیساتھ ایک رشتہ استاد اور شاگرد کا بھی تھا آپ ﷺ کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ اپنی آواز کو نبی ﷺ کی آواز سے اونچا مت ہونے دو اور ان سے زور زور سے باتیں مت کیا کرو جیسے تم آپس میں کرلیا کرتے ہو.. الحجرات
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں ، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے استاد کی آواز سے اپنی آواز کو اونچا کرنا صریحا ناشائستگی ہے
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور ﷺ کی مجلس میں نہایت ادب کیساتھ بیٹھتے تھے ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ ﷺ کی محفل میں یوں بیٹھتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھتے ہیں کہ ذرا سی حرکت پر اڑ جائیں گے ،
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے استاد کی مجلس میں نہایت ادب اور خاموشی سے بیٹھ کر اس کی بات سنیں ، بیچ میں نہ ٹوکیں ۔ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو گفتگو کے بعد سوال کریں،
استاد کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے اس کی بات کو توجہ سے سنے ۔ اس کے سامنے زیادہ بولنا بے ادبی ہے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادہ کو نصیحت کی استاد کی صحبت میں خود بولنے سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کرنا

استاد کا شاگرد پر تیسرا حق یہ ہے کہ اس کی عزت اور تعظیم کی جائےاحترام میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب استاد کمرے میں داخل ہو تو سب طلبہ اس کے احترام میں کھڑے ہوجائیں اور استاد کو سلام کہے اور استاد کو بھی چاہیئے کہ وہ سلام کا جواب بہتر انداز میں ادا کرے اور جب تک استاد تشریف نہ رکھے بچے بھی نہ بیٹھیں مکتب کے باہر بھی اگر یہ صورت پیدا ہو تو طالب علم کو استاد کی عزت ادب و احترام اسی طرح کرنا چاہیئے استاد کسی حیثیت کا ہو اسے حقیر تصور نہ کیا جائے
استادوں کے سامنے عاجزی برتنا اور ان کا ادب کرنا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علم حاصل کرو علم کیلئے متانت اور وقار پیدا کرو جس سے تعلیم حاصل کرو اس سے خاکساری برتو
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ بوڑھے مسلمان اور عالم حافظ قرآن بادشاہ عادل اور استادوں کی عزت کرنا تعظیم خدا وندی میں داخل ہے
ابن وہاب ؒ کہا کرتے تھے امام مالک ؒ کے ادب سے مجھے جو کچھ ملا علم سے اتنا نہیں ملا
ایک مرتبہ امام احمد ؒ کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اثنائے گفتگو میں ابراہیم بن طحمان ؒ کا ذکر نکل آیا ان کا نام سنتے ہی امام احمد ؒ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ نازیبا بات ہوگی کہ بڑوں کا نام لیا جائے اور ہم ٹیک لگاکر بیٹھے رہیں
امام ربیع ؒ فرماتے ہین کہ اپنے استاد امام شافعی ؒ کی نظر کے سامنے مجھ کو کبھی پانی کی جرات نہ ہوئی امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ امام مالک ؒ کے سامنے میں ورق بھی آہستہ الٹتا تھا کہ اسکی آواز ان کو سنائی نہ دے
بغیر اجازت استاد سے بات نہ کرے اور اس کے سامنے بلند آواز سے نہ بولے اس کے آگے نہ چلے اس کے بیٹھنے کی جگہ پر نہ بیٹھے ، اس کی منشا معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہے ۔ اور اس کے مطابق عمل کرے اور اگر کسی وقت استاد کی طبعیت مکدر ہو تو اس وقت اس سے کوئی بات نہ پوچھے ، کسی اور وقت دریافت کرلے ، استاد کو دستک دے کر نہ بلائے بلکہ اس کے نکلنے کا انتظار کرے.. تعلیم المتعلم
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اصحاب رسول اللہ ﷺ میں انصار کے پاس سے مجھے زیادہ علم ملا ، میں ان کے دروازے پر دوپہر کی گرمی میں پڑا رہتا تھا ۔ حالانکہ اگر میں چاہتا تو عہ مطلع ہونے پر فورا نکل آتے مگر مجھے ان کے آرام کا خیال رہتا تھا جب وہ باہر آتے تو اس وقت میں ان سے دریافت کرتا ۔
حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحبؒ کے بارے میں متعدد حضرات نے بیان کیا کہ کوئی بات دریافت کرنی ہوتی یا کتاب کا مضمون سمجھنا ہوتا تو حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے مکان کے دروازے پر جاکر بیٹھ جاتے جب گھر سے باہر نکلتے تو اس وقت دریافت کرتے ، اور یہ تقریبا روزانہ ہی کا معمول تھا ... آداب المتعلمین

طالب ِعلم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسباق میں غیر حاضری سے اجتناب کرے، ناغہ کرنے سے اس کے علم واستعداد میں کمی آئے گی۔ نتیجتاًلوگ اس کے استاد ہی کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے، چنانچہ اپنے اساتذہ کو الزام آنے سے بچانا بھی استاد کے حقوق میں سے ہے۔ پابندی سے حاضری کے علاوہ کلاس روم میں توجہ اور دھیان سے سبق سننا اور یاد کرنا طالب علم کی بڑی اہم ذمہ داری ہے۔ مزید برآں یہ اُس پر استاد کا حق ہے۔
اگر سبق سمجھ میں نہ آئے تو اُستاد سے پوچھ لینا طالبِ علم کی ذمہ داری ہے۔رسول اللہﷺنے فرمایا: فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِّيِ السُّؤَالُ یقیناً (علم کی) محتاجی کا علاج سوال کرنے میں ہے۔یہ بھی طالب ِعلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ محترم استاد کو عام انسانوں کی طرح انسان ہی سمجھے جس سے غلطی کا سرزد ہوناعین ممکن ہے۔
استاد کی سختی کو برداشت کرنا بلکہ نعمت سمجھنا
استاد کی سختی کو برداشت کرے۔ اسکی برائی سےاجتناب کرے،اسکےعیبوں کی پردہ پوشی کرے اور خوبیوں کو اُجاگر بیان کرے۔ فضول اور وقت ضائع کرنے والے سوالات سے پرہیز کرے۔ طالب ِعلم یہ بھی یاد رکھے کہ غلطی پر استاد کا خفا ہونا ایک فطری چیز ہے، لہٰذا طالب علم اُستاد کے غصے کو محسوس نہ کرے۔بلکہ یہ سمجھے کہ اُستادکا میری غلطی پر ناراض ہونا خود میرے ہی لیے مفید ہے۔
جناب رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے لقطہ (گری ہوئی چیز ) کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کا سر بند اور ظرف پہچان کر ( مالک تک پہنچادے) اس سائل نے کہا گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے ؟؟ اس سوال پر آپ ﷺ پر غصہ کے آثار نمودار ہوئے حتی کہ رخسار مبارک سرخ ہوگیا ، آپ نے فرمایا تجھے اس سے کیا کام ہے ؟ اس کے ساتھ اس کی مشک ہے اور اس کے موزے پانی ( کے گھاٹ پر ) جاکر پانی پیتا ہے اور درختوں سے چارہ کھاتا ہے (بخاری )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی بے ڈھنگے سوال پر استاد غصہ کرے تو شاگرد کو چاہیئے کہ اس کو گوارہ کرے مکدر نہ ہو جس طرح صحابی نے برا نہیں مانا ، ،، اصلاح انقلاب ص280
اس سے ایک اور بات نکل آئی وہ یہ کہ بعض طلبہ استاذوں کی شکایت کرتے ہیں کہ بڑے سخت ہیں تو معلوم ہوگیا کہ یہ سنت ہے کہ بے موقع بات پر غصہ کیا جائے چنانچہ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں جس شخص کو غصہ دلانے کے باوجود غصہ نہ آئے وہ حمار ہے معلوم ہوا کہ جس کے اندر غیرت و غصہ وحمیت سرے سے موجود ہی نہ ہو وہ انتہائی ناقص ہے
پس اگر استادشاگرد کی کسی بیکار بات بےڈھنگے پن بے ادبی بدذوقی عدم سعی تحصیل علم یا غلطی پر غصے میں آجائے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں انسان ہونے کے ناطے جیسا کہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کو بھی غصہ آیا اگر استاد غصہ ہوکر تنبیہ کریں یا طمانچہ رسید کریں ۔ توسعادت مند طالب علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے مکرم اُستاد کی سخت باتیں بھی چپ چاپ ادب کے ساتھ سن لے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے اور ان سختیوں کو برداشت کریں استاد کی شکایت کرنے سے گریز کرنا چاہیئے کیونکہ شکایت کرنے کے بعد استاد کو معلوم ہوگیا تو استاد کی توجہ اس سے ہٹ جائے گی جو علم کے فیوض و برکات کیلئے مانع ہے اور شاگرد استاد سے نفرت نہ کریں ورنہ اس سے بھی علم سے محرومی ہوگی ۔
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا انسان پر اپنے استاد کی مدارت واجب ہے اس کی سختی کو برداشت کرے استاد کوئی اچھی بات بتائے یا کسی بری بات پر تنبیہ کرے تو اس کی شکر گذاری ضروری ہے جب وہ کوئی نکتہ بتائے تو تمہیں اگر وہ پہلے سے معلوم ہو جب بھی یہ ظاہر نہ کرو کہ مجھے پہلے سے معلوم ہے
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی کو انکے شامی استاد نے معمولی سی بات پر جو غلط فہمی پر مبنی تھی بہت زیادہ مارا تھا لیکن اس وقت اور اس کے بعد مولانا کے دل میں ذرا بھی تکدر نہ ہوا پھر عرب و عجم میں حضرت مولانا کا جو مقام ہوا اور اللہ پاک نے دین کی جو خدمت ان سے لی دنیا نے اس کو دیکھا
استاد کی شکایت بھی نہ کریں انشاء اللہ ان باتوں کا خیال رکھنے سے علم حاصل ہوگا جیسا کہ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ
نہ دانی کہ سعدی مکاں ازچہ یافت نہ ہاموں نوشت ونہ دریا شگافت
مجھے معلوم نہیں کہ سعدی نے مرتبہ کس چیز سے پایا نہ جنگل طے کئے نہ دریا پھاڑا
نجردی بخورد از بزرگان قفا خدا دادش اندر بزرگی صفا
بچپن میں بزرگوں کے طمانچے کھائے خدا نے اس کو بزرگی میں صفائی عنایت فرمائی
ہرآں طفل کو جور آموز گار نہ بیند جفا بیند از روزگار
ہر وہ بچہ جو استاد کا ظلم نہیں سہتا ہے زمانہ کا ظلم سہتا ہے
چواز گلبنے دیدہ باشی خوشی روا بار خارش کشی
جب تو نے پھولوں کی شاخ سے خوشی دیکھی مناسب ہے کہ تو اس کے کانٹے کا بوجھ برداشت کرے
نجردی درش زجر و تعلیم کن نہ نیک وبدش وعدہ وبیم کن
بچپن میں اس کو جھڑک اور علم سکھا اچھے اور برے کام کا وعدہ اور خوف دلا
شیخ سعدی ؒ کے اشعار سے معلوم ہوا کہ سختی سے فائدہ بھی ہے اور طلباء کیساتھ رفق یہ ہے کہ سختی کے موقع پر سختی کی جائے اور نرمی کے موقع پر نرمی کی جائے
شاگرد کو چاہیئے کہ غلطی ہونے پر خود استاد سے معافی مانگ لے استاد کو کبھی ناراض نہ کرنا چاہیئے اگر اس کی شان میں خدانخواستہ کوئی بے ادبی اور گستاخی ہوجائے تو فورا انتہائی عاجزی کیساتھ معافی مانگ لے اگر استاد کا دل مکدر ہوگیا تو اس سے فیض نہیں حاصل کرسکتا ایک بزرگ نے فرمایا اپنے اساتذہ کو برا نہ کہو ورنہ تمہارے تلامذہ تمہیں برا کہیں گے
اس لئے طلبہ کو چاہیئے کہ اساتذہ کی خدمت کریں اور استاد کی خدمت کو فلاح دارین کا ذریعہ سمجھےجو طلبہ اپنے اساتذہ کی خدمت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے طلبہ کو فارغ ہونے کے بعد دنیا و آخرت کی کامیابی عطا فرماتے ہیں جس سے ہزاروں انسانوں کو ہدایت نصیب ہوتی ہے
اللہ ہم سب کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 

9/8/22

عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت




باسمہ سبحانہ وتعالی 
*توجہ سے پڑھیے اور عقیدہ ختم نبوت کی اھمیت جانیے*

          عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے اس کے ایمان کا تقاضہ اور آخرت میں شفاعتِ رسول ﷺ کا ذریعہ ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا وہ بنیادی اور اہم عقیدہ ہے جس پر پورے دین کا انحصار ہے۔اگر یہ عقیدہ محفوظ ہے تو پورا دین محفوظ ہے۔ اگر یہ عقیدہ محفوظ نہیں تو دین محفوظ نہیں۔ قرآن کریم میں ایک سو سے زائد آیات اور ذخیرہ احادیث میں دوسوسے زائد احادیث نبوی اس عقیدے کا اثبات کر رہی ہیں۔ جن میں پوری تفصیل سے ختم نبوت کے ہر پہلو کو اجاگر کیاگیا ہے۔ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے کہ حضور اکرمﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے بلکہ امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ فتویٰ ہے کہ حضور خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا یا معجزہ مانگنا بھی کفر ہے۔ اس سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے جو عظیم قربانی دی وہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نظر میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جو اہمیت تھی اس کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدعی نبوت مسیلمہ کذاب سے جو معرکہ ہوا اس میں بائیس ہزار مرتدین قتل ہوئے اور 1200کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جام شہادت نوش فرمایا جس میں600 کے قریب تو حفاظ اور قراء تھے حتیٰ کہ اس معرکہ میں بدری صحابہ کرام نے قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کردیا مگر اس عقیدہ پر آنچ نہ آنے دی۔حضورﷺ کی حیات طیبہ میں دین اسلام کیلئے شہید ہونے والے مردوں‘ عورتوں‘ بچوں و بوڑھوں اور نوجوانوں کی تعداد 259 ہے اور اس دوران قتل ہونے والے کفار کی کل تعداد 759 ہے جبکہ کل تعداد 1018 بنتی ہے۔ جبکہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے لڑی جانے والی صرف ایک جنگ میں شہداء و مقتولین کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میںبے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ ایک خود ساختہ نبوت قادیانیت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جس کی تمام تر وفاداریاں انگریزی طاغوت کے لیے وقف تھیں، انگریز کو بھی ایسے ہی خاردار خود کاشتہ پودے کی ضرورت تھی جس میں الجھ کر مسلمانوں کا دامن اتحاد تار تار ہوجائے ۔ اس لیے انگریزوں نے اس خود کاشتہ پودے کی خوب آبیاری کی ۔ اس فرقہ کے مفادات کی حفاظت بھی انگریزی حکومت سے وابستہ تھے۔ اس لیے اس نے تاج برطانیہ کی بھر پور انداز میں حمایت کی، ملکہ برطانیہ کو خوشامدی خطوط لکھے، حکومت برطانیہ نے عوام میں راہ ہموار کرنے کے لیے حرمت جہاد کا فتویٰ دیا، چاپلوسی کے وہ گھٹیا اور پست طریقے اختیار کیے جس سے مرزا غلام احمدکی کتابیں بھری پڑی ہیں۔مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علماء کرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلہ میں میدان عمل میں نکلے ۔مرزا قادیانی کے فتنہ سے نمٹنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کوششیں کی گئیں ان میں بڑا اہم کردار علماء کا ہے ، بالخصوص حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اور امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی خدمات اور مساعی اس سلسلہ میں امت مسلمہ کے ایمان کے تحفظ و بقاء کا سبب ہیں ۔ 
      علامہ سیّد انور شاہ کشمیریؒ گویا کہ اس فتنہ کے خاتمے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے‘ اس فتنے کے لئے وہ ہمیشہ بے چین و بے قرار رہتے۔امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ نے خود بھی اس موضوع پر گرانقدر کتابیں تصنیف کیں بعد میں اپنے شاگردوں کو بھی اس کام میں لگایا‘ جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ ‘ مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری ؒ‘ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ‘ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ‘ مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ مولانا محمد یوسف بنوریؒ‘ ‘ مولانا محمد منظور نعمانی ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جدید طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مولانا ظفر علی خانؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کو تیار و آمادہ کیا۔

        امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ اپنے شاگردوں سے عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ اور ردِ قادیانیت کے لئے کام کرنے کا عہد لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ
: ’’جو شخص قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن شفاعت سے وابستہ ہونا چاہتا ہے وہ قادیانی درندوں سے ناموس رسالت کو بچائے۔

انتخاب ؛ بزم اخـــــــــوات
https://chat.whatsapp.com/CsxQI3toeh0ENGLDyPHSy5

      حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لئے تحریک آزادی کے عظیم مجاہد حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت مقرر کیا اور انجمن خدام الدین لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ اس اجلاس میں پانچ سو جید اور ممتاز علماء و صلحا موجود تھے‘ ان سب نے حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کی۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒنے تحریک آزادی کے بعد عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور قید وبند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پورے ملک میں بڑھاپے اور بیماری کے باوجود جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کر کے نسل نو کے ایمان کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا۔امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ستمبر 1951 ء میں کراچی میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ:۔۔۔۔ تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ، قویٰ میں تناسب ہوتا،چھاتی45 انچ کی، کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتہ نہ چلتا، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا،انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں، 

        میاں!  آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالت ؐ جس کے سر پر ناز کرے 
حضرت مولانا سیّد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ تو ختم نبوت کے کام کو اپنی مغفرت کا سبب بتایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: 
     ’’اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا ہم سے بہتر ہے 
   ۔‘‘ حضرت علامہ شمس الحق افغانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کا آخری وقت تھا کمزوری بہت زیادہ تھی ، چلنے کی طاقت بالکل نہ تھی ، فرمایا کہ مجھے دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں پہنچا دیں ، اس وقت کاروں کا زمانہ نہ تھا ایک پالکی لائی گئی ،پالکی میں بٹھا کر حضرت شاہ صاحب کو دارالعلوم کی مسجد میں پہنچا دیا گیا ، محراب میں حضرت کی جگہ بنائی گئی تھی وہاں پر بٹھا دیا گیا تھا ، حضرت کی آواز ضعف کی وجہ سے انتہائی ضعیف اور دھیمی تھی ۔تمام اجل شاگرد حضرت انور شاہ کشمیر ی ؒ کے ارداگردہمہ تن گوش بیٹھے تھے آپ نے صرف دو باتیں فرمائیں ، پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تاریخ اسلام کا میں نے جس قدر مطالعہ کیا ہے اسلام میں چودہ سو سال کے اندر جس قدر فتنے پیدا ہوئے ہیں ، قادیانی فتنہ سے بڑا اور سنگین فتنہ کوئی بھی پیدا نہیں ہوا ۔ دوسری بات یہ فرمائی حضور ﷺ کو جتنی خوشی اس شخص سے ہو گی جو اس کے استیصال کیلئے اپنے آپ کو وقف کرے گا تو رسول اکرم ﷺ اس کے دوسرے اعمال کی نسبت اس کے اس عمل سے زیادہ خوش ہوں گے اور پھر آخر میں جوش میں آکر فرمایا ! 
       کہ جو کوئی اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے اپنے آپ کو لگا دے گا ، اس کی جنت کا میں ضامن ہوں

     لہذاعقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، نسل نو کے ایمان کی حفاظت اور قادیانیت کے کفر کو بے نقاب کرنے کیلئے ہر ایک مسلمان کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکے ۔ 

کی محمد سے وفا تونے تو ھم تیرے ھیں
یہ جہاں چیز ھے کیا لوح قلم تیرے ھیں

9/6/22

بچوں کی تربیت اسلام کے تناظر میں

بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر اُنہیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ اور قوم وجود میں آتی ہے، اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ بچپن کی تربیت نقش کالحجر ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبلوغت کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوںگے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔نیز! اولاد کی اچھی اور دینی تربیت دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے، جب کہ نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔ لفظِ ’’تربیت‘‘ ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے، اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت، پھر ان قسموں میں بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں۔ ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد وغرض‘ عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے۔ تربیت ِ اولاد بھی اُنہیں اقسام میں سے ایک اہم قسم اور شاخ ہے۔ آسان الفاظ میں ’’تربیت‘‘ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ:’’ برے اخلاق وعادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق وعادات اور ایک صالح ،پاکیزہ ماحول سے تبدیل کرنے کا نام ’’تربیت‘‘ ہے۔ ‘‘ تربیت کی دو قسمیں: تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: ۱:…ظاہری تربیت،۲:…باطنی تربیت ۔ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول ،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش وغیرہ کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنہیں اُبھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ‘‘۔       (التحریم:۶) ترجمہ:’’اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘۔ حضرت علی qنے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا کہ: ’’علموھم وأدِّبوھم‘‘۔ ترجمہ:’’ان (اپنی ولاد )کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ‘‘۔ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ:ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لیے کوشش کرے۔ اولاد کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث سے بھی ہوتا ہے، آپ a کا ارشاد ہے: ۱:’’مانحل والد أفضل من أدب حسن‘‘۔                                (بخاری، جلد:۱،ص:۴۲۲) ترجمہ:’’کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے‘‘۔ یعنی اچھی تربیت کرنا اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لیے سب سے بہترین عطیہ ہے۔ ۲:’’ عن ابن عباسؓ۔۔۔۔۔۔قالوا: یارسول اللّٰہ! قد علمنا ما حق الوالد فماحق الولد؟ قال:أن یحسن اسمہ ویحسن أدبہ‘‘۔                            (سنن بیہقی) ترجمہ:’’حضرت ابن عباسr سے روایت ہے، صحابہ کرامs نے عرض کیا:یارسول اللہ! والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیے، اولاد کے کیا حقوق ہیں؟آپ a نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے ‘‘۔ ۳:’’یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ انسان جن کا ذمہ دارورکھوالا ہے، اُنہیں ضائع کردے، ان کی تربیت نہ کرے‘‘۔ یہ بھی ضائع کرنا ہے کہ بچوں کو یونہی چھوڑدینا کہ وہ بھٹکتے پھریں، صحیح راستہ سے ہٹ جائیں، ان کے عقائد واخلاق برباد ہوجائیں۔نیز اسلام کی نظر میں ناواقفیت کوئی عذر نہیں ہے، بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں جن امور کا جاننا ضروری ہے، اُس میں کوتاہی کرنا قیامت کی باز پرس سے نہیں بچا سکتا۔     حضرت عبد اللہ بن عمرrکا ارشاد ہے: ’’اپنی اولاد کوادب سکھلاؤ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا،کہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟۔‘‘   (شعب الإیمان للبیہقی) بچوں کی حوصلہ افزائی بچہ نرم گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے، ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائے گی۔بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس پر اُسے شاباش اورکوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے جس سے بچہ خوش ہوجائے اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہوجائے۔ بچوں کی غلطی پر اُنہیں تنبیہ کرنے کا حکیمانہ انداز بچوں کو کسی غلط کام پر باربار اور مسلسل ٹوکنا اُن کی طبیعت میں غلط چیز راسخ ہونے سے حفاظت کا سبب بنتا ہے،جس سے اگر غفلت نہ برتی گئی تو اس میں شک نہیں کہ بچوں اور بچیوں میں غلط افکار جڑپکڑنے سے پہلے کامل طریقہ سے ان کی بیخ کنی ہوگی ۔بچے سے خطأ ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے، غلطی تو بڑوں سے بھی ہوجاتی ہے۔ ماحول کا بچوں پر اثر ہوتا ہے، ممکن ہے کہ غلط ماحول کی وجہ سے بچہ کوئی غلطی کربیٹھے، تو اس صورت حال کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ بچے سے غلطی کس سبب سے ہوئی؟ اسی اعتبار سے اسے سمجھایا اور تنبیہ کی جائے۔تربیت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، مربی کو اس بات سے باخبر ہونا چاہیے کہ اس وقت بچہ کے لیے نصیحت کارگر ہے یا سزا؟ تو جہاں جس قدر سختی اور نرمی کی ضرورت ہو اسی قدر کی جائے۔ بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔متنبی شاعر کہتا ہے: فوضع الندی فی موضع السیف بالعلا

مضر کوضع السیف فی موضع الندی ترجمہ:’’جہاں تلوار چلانی ہو وہاں سخاوت اتنی ہی نقصان دہ ہے جتنا کہ سخاوت کے موقع پر تلوار چلانا‘‘۔ تربیت میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہیے، چنانچہ غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے : ۱:…سمجھانا۔۲:…ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔۳:…مارکے علاوہ کوئی سزا دینا۔۴:…مارنا۔۵:… قطع تعلق کرنا۔ یعنی غلطی ہوجانے پر بچوں کی تربیت حکمت کے ساتھ کی جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اُسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحۃً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے ۔     بچہ کی پیارومحبت سے تربیت واصلاح کا ایک واقعہ حضرت عمر بن ابی سلمہq سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ: میں بچپن میں رسول اللہ a کی زیرتربیت اور زیرکفالت بچہ تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول اللہ a نے مجھ سے فرمایا: ’’یا غلام سم اللّٰہ! وکل بیمینک وکل ممایلیک‘‘ ۔۔۔۔’’اے لڑکے! اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ۔‘‘ اگر نصیحت اور آرام سے سمجھانے کے بعد بھی بچہ غلطی کرے تو اُسے تنہائی میں ڈانٹا جائے اور اس کام کی برائی بتائی جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا کہا جائے۔ پھر بھی اگر باز نہ آئے تو تھوڑی بہت مارپیٹ بھی کی جاسکتی ہے۔ تربیت کے یہ طریقے نوعمر بچوں کے لیے ہیں، لیکن بلوغت کے بعد تربیت کے طریقے مختلف ہیں، اگر اس وقت نصیحت سے نہ سمجھے تو جب تک وہ اپنی برائی سے باز نہ آئے اس سے قطع تعلق بھی کیا جاسکتا ہے، جو شرعاً درست ہے اور کئی صحابہ کرام sکے عمل سے ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مغفلq کے ایک رشتہ دار تھے جو ابھی بالغ نہ ہوئے تھے، انہوں نے کنکر پھینکا تو حضرت عبداللہq نے منع کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ a نے کنکر مارنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ : ’’إنّھا لاتصید صیدًا‘‘ اس سے کوئی جانور شکار نہیں ہوسکتا، اس نے پھر کنکر پھینکا تو انہوں نے غصہ سے فرمایا کہ میں تمہیں بتلارہا ہوں کہ رسول اللہ a نے اس سے منع فرمایا ہے اور تم پھر دوبارہ ایسا ہی کررہے ہو؟ میں تم سے ہرگز بات نہیں کروں گا۔اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرq نے اپنے بیٹے (بلال)سے حدیث کے مقابلہ میں اپنی رائے پیش کرنے کی بنا پر قطع تعلق کیا تھا اور مرتے دم تک اس سے بات نہ کی۔ بچوں کو ڈانٹنے اور مارنے کی حدود بچوں کی تربیت کے لیے ماں باپ یا استادکااُنہیں تھوڑابہت، ہلکا پھلکا مارنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے،بلکہ بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے۔اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار نہیںہونا چاہیے۔ غصہ میں بے قابو ہوجانا اور حد سے زیادہ مارکٹائی کرنایا بچوں کے مارنے ہی کو غلط سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں۔ پہلی صورت میں افراط ہے اور دوسری میں تفریط ہے۔اعتدال کا راستہ وہ ہے جو نبی کریم a نے ایک حدیث میں بیان فرمایا کہ:’’اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو، جبکہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور ان کو نماز نہ پڑھنے پر مارو، جبکہ وہ دس سال کے ہوجائیں‘‘۔ (مشکوٰۃ) اس حدیث سے مناسب موقع پر حسبِ ضرورت مارنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔     مارنے میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اس حد تک نہ ماراجائے کہ جسم پر مار کا نشان پڑجائے۔ نیز جس وقت غصہ آرہا ہو، اس وقت بھی نہ مارا جائے، بلکہ بعد میں جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے تو اس وقت مصنوعی غصہ ظاہر کرکے ماراجائے،کیونکہ طبعی غصہ کے وقت مارنے میں حد سے تجاوز کرجانے کا خطرہ ہوتا ہے اور مصنوعی غصہ میں یہ خطرہ نہیں ہوتا، مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور تجاوز بھی نہیں ہوتا۔ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا گناہ ہے اولاد اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اورتحفہ ہے،خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔اسلامی تعلیمات کی رو سے بچوں پر رحم وشفقت کے معاملہ میں مذکر ومؤنث میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ جو والدین لڑکے کی بنسبت لڑکی سے امتیازی سلوک کرتے ہیں، وہ جاہلیت کی پرانی برائی میں مبتلا ہیں، اس طرح کی سوچ اور عمل کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ دینی اعتبار سے تو اس پر سخت وعید یں وارد ہوئی ہیں۔ لڑکی کو کمتر سمجھنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے سے ناخوشی کا اظہار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُسے لڑکی دے کر کیا ہے، ایسے آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تو کیا پوری دنیا بھی مل کراللہ تعالیٰ کے اس اٹل فیصلہ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔یہ درحقیقت زمانۂ جاہلیت کی فرسودہ اورقبیح سوچ ہے، جس کو ختم کرنے کے لیے رحمۃ للعالمین a نے والدین اور تربیت کرنے والوں کو لڑکیوں کے ساتھ اچھے برتاؤاوران کی ضروریات کا خیال رکھنے کی باربار نصیحت کی۔ اولاد کے درمیان برابری اور عدل ابوداؤد شریف میں حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی حدیث ہے: ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اعدلوا بین أبنائکم اعدلوا بین أبنائکم اعدلوا بین أبنائکم‘‘۔                                    (ابوداؤد،جلد:۲،ص:۱۴۴) ترجمہ:’’رسول اللہ a نے فرمایا:اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو،اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ظاہری تقسیم کے اعتبار سے سب بچوں میں برابری کرنی چاہیے،کیونکہ اگر برابری نہ ہو تو بچوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ہاں! فطری طور پر کسی بچے سے دلی طور پر زیادہ محبت ہو تواس پر کوئی پکڑ نہیں،بشرطیکہ ظاہری طور پر برابری رکھے۔ حدیث میں تین بارمکرر برابری کی تاکیدکی ہے جو اس کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے، یعنی اولاد کے درمیان برابری کرنا واجب ہے، اور برابری نہ کرنا ظلم شمار ہوگا۔اور اس کا خیال نہ رکھنا اولاد میں احساسِ کمتری اور باغیانہ سوچ کو جنم دیتا ہے، جس کے بعد میں بہت بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمان والدین کو اپنی اولاد سے متعلق ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین