نور آفیشل

9/11/22

استاد کا مقام


اسلام نے استاد کے بہت سے حقوق متعین کئے ہیں جن کا مختصر جائزہ پیش ہے
اُستاد اور شاگرد کے باہمی حقوق
خاندان یا کنبہ کے بعد اسلامی نقطہ نظر سے مکتب معاشرے کی ایک اہم منزل ہے یہاں ماں کی گود کے بعد گھر کے دوسرے افراد کی شفقت و محبت کے بعد ایک مسلمان بچے کے تعلقات دوسرے بچوں اور اساتذہ سے پیدا ہوتے ہیں یہی وہ مقام ہے جہاں سے وہ تربیت کیساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتا ہےاور جو کچھ وہ یہان سے حاصل کرتا ہے وہ اس کا مظاہرہ گھر سے بھی کرتا ہے درس گاہ میں بھی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام گھر کے بعد بچے کیلئے مکتب کے ماحول کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے اور یہی وہ مقام ہیں جہاں سے وہ علم کی روشنی حاصل کرتا ہے
اسلام میں علم کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے یہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسان پہلے اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہےاسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی اس میں پہلا حکم علم کے بارے میں تھاعلم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں حضور ﷺ کو یہ دعا سکھائی گئی رب زدنی علما ، اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما اور بحیثیت نبی آپ ﷺ کے وظائف میں سے ہےوَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ ُزَكِّيْهِمْ، اورآپ ﷺان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے رہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے رہیں آپ ﷺ کا منصب معلم کا بھی ہے بلکہ آپ ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی تعلیم قرار دیا انا بعثت معلما ، بیشک میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم ، علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے
مکتب وہ جگہ ہے جہاں لکھنا اور پڑھنا سکھایا جاتا ہے عام استعمال میں مکتب کا لفظ مدرسہ کا ہم معنی ہے اس طرح ان دونوں کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ ادارہ جہاں لکھنا اور پڑھنا سکھایا جاتا ہو
مکتب جہالت کا علاج ہے اور انسانی تہذیب وتمدن کا نکتہ آغاز
مکتب کے ذریعے سے اچھے اور نیک سیرت اساتذہ کی صحبت میسر آتی ہے جس سے طالب علم کے قلب و ذہن کی دنیا ہی بدل جاتی ہے اور اس کی زندگی نئے انداز اختیار کرتی ہے
مکتب میں اساتذہ کے علاوہ دوسرے طالب علموں سے مراسم بڑھتے ہیں سب ایک دوسرے سیکھتے ہیں ہم جماعتوں کی ایک مستقل برادری وجود میں آتی ہے جس کے اثرات بڑے دیرپا ثابت ہوتے ہیں
مکتب میں رہ کر بچہ آداب سیکھتا ہے جو عملی زندگی میں اس کے بڑے کام آتے ہیں اور یہاں وہ وقت کی پابندی بھی سیکھتا ہے
مکتب کی زندگی سے طالب علم کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتی ہےاور طالب علم کو نظم و ضبط سکھاتی ہے جو آئندہ زندگی میں اس کے بڑے کام آتا ہے اور وہ ہر کام کو ایک سلیقہ اور حسن ترتیب سے انجام دیتا ہے
مکتب تعلیم کا ایک ذریعہ ہے،جس میں اچھی سیرت سازی اور تربیت ہے۔جہان رہ کر انسان علم حاصل کرتا ہے اور علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔اس لحاظ سے تعلیم وتربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ کسی بھی مکتب میں نصاب تعلیم کے تین اہم عناصر ہوتے ہیں 1 اساتذہ 2 شاگرد 3 طالب علم ساتھی ، ان تینوں کے آپس میں کچھ فرائض اور کچھ حقوق بھی ہیں ، ان کی ادائیگی کی وجہ سے مکتب کا ماحول پرسکون رہتا ہے اور جس مقصد کیلئے بچے مکتب میں آتے ہیں وہ پورا ہوتا ہے
لیکن خاص طور پر تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر اُستاداورشاگرد ہیں۔ معلّم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں، سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔
بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس فریضہ ہے ،اسی اہمیت او ر تقدس کے پیش نظر اُستاد اور شاگرد دونوں کی اپنی اپنی جگہ جدا گانہ ذمہ داریاں ہیں۔ اُنہیں پورا کرنا ہر دو جانب کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کیا جائے تو پھر تعلیم بلاشبہ ضامنِ ترقی ہوتی اور فوزوفلاح کے برگ و بار لاتی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ حقوق استاد پر عائد ہوتے ہیں جبکہ بعض شاگرد پر
معاشرے میں استاد کا مقام
استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے اس لیے اسلام نے معاشرے میں اسے بہت حیثیت دی ہے اور اس کی بے حد عزت واحترام کی تاکید کی ہےحضور ﷺ نے استاد کو حقیقی باپ سے بھی زیادہ مرتبہ دیا ہے آپ ﷺ کا ارشاد ہے دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا باعث ہوا دوسرا وہ جس نے اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کردی اور تیسرا وہ جس سے تم نے علم حاصل کیا اور ان میں بہترین باپ تمہارا استاد ہےصحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپس میں جس سے کچھ سیکھتے اسے استاد کا درجہ دیتے اور اس کا ادب و احترام کرتے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس سے میں نے ایک حرف بھی سیکھا ہے میں اس کا غلام ہوں اسے اختیار ہے خواہ وہ مجھے فروخت کردے یا آزاد کردے اور چاہے تو غلام بناکر رکھے
ایک شاعر کہتا ہے
رایت احق الحق حق المعلم واوجبہ حفظا علی کل مسلم
لقد حق ان یھدی الیہ کرامۃ لتعلیم حرف واحد الف درھم
سب سے بڑا حق تو معلم کا ہے جس کی رعایت تمام مسلمانوں پر فرض ہے واقعی وہ شخص جس نے تم کو ایک لفظ سکھادیا اس کا مستحق ہے کہ ہزار درہم اس کے لئے ہدیہ کئے جائیں بلکہ اس کے احسان کے مقابلہ میں تو ہزار درہم کی بھی کوئی حیثیت نہیں ، آداب المتعلمین
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اسلام میں علم کی کیا حیثیت ہے اور استاد کا کتنا درجہ ہے ؟؟
شاگرد پر اُستاد کے حقوق
استاد کے اس مقام اور مرتبہ کی وجہ سے اسلام نے استاد کے بہت سے حقوق متعین کیے ہیں لیکن سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ طالب علم نبیٔ کریمﷺ کے اس ارشاد مبارک کو مدنظر رکھے کہ آپﷺنے فرمایا: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیرَنَاوہ ہم میں سےنہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت واحترام نہ کرے۔
اس لیے شاگرد پر لازم ہے کہ وہ اُستاد کا احترام کرے اور اس کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بھی اپنے آپ کو بچائے۔استاد معلّم و مربی ہونے کے لحاظ سے باپ کے درجے میں ہوتا ہے، آپﷺ نے فرمایا: إنَّمَا أَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ،أُعَلِّمُکُمْ میں تمہارے لیے بمنزلۂ والد ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔
چنانچہ روحانی ماں باپ کی تکریم و تعظیم کیجیے۔ اُستاد سے آمرانہ اسلوبِ گفتار سے پرہیز کریں، اس کے سامنے اَدب اور شائستگی سے بیٹھیں، اس کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کریں۔طالب علم کو تکبر و بڑائی سے دوررہنا چاہیے، اپنے اندر عجز واِنکسارپیدا کرنا چاہیے۔اَمیر المؤمنین عمر بن خطاب فرماتے ہیں:تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، وَتَعَلَّمُوا لَهُ السَّکِینَةَ وَالْوَقَارَ، وَتَوَاضَعُوا لِمَنْ تَتَعَلَّمُونَ مِنْهُ وَلِمَنْ تُعَلِّمُونَه، وَلاَ تَکُونُوا جَبَابِرَة َالْعُلَمَاءِ علم حاصل کرو۔ اس کے لئے سکینت ووقار بھی سیکھو۔ جن سے علم حاصل کرتے ہو اور جنھیں سکھاتے ہو اُن کے لیے تواضع اورعاجزی اختیارکرو۔جبر کرنیوالے علما مت بنو۔
اَساتذہ کے ساتھ اَدب واحترام کاایک سبق آموز واقعہ سیدنا عبداللہ بن عباس کا ہے، جسے امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں ذکر کیا ہے۔ نقل کرتے ہیں:
ایک دفعہ سیدنا زید بن ثابت جو قرآن کے حافظ اور کتاب و سنت کے بہت بڑے عالم تھے، نے ایک جنازہ پڑھایا۔ واپسی کے لیے سواری لائی گئی تاکہ آپ اس پر سوار ہو جائیں، عبداللہ بن عباس آگے بڑھے اور سواری کی رکاب تھام لی،زید بن ثابت نے کہا: رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی! آپ ایسا نہ کریں۔ ابن عباس نے فرمایا: هٰكَذَا یُفْعَلُ بِالْعُلَمَاء وَالْکُبَرَاء جی نہیں، میں یہ رکاب ضرور پکڑوں گا، کیونکہ علما اور بڑوں کا یہ حق ہے کہ ان سے ایساہی برتاؤ کیا جائے۔
اُستاد کا کیا مقام ومرتبہ ہے؟ یہ امام شعبہ سے پوچھئے، فرماتے ہیں: کُلُّ مَنْ سَمِعْتُ مِنْهُ حَدِیثًا، فَأَنَا لَه عَبْد جس سے میں نے ایک حدیث پڑھی ہے، وہ میرا آقا اور میں اس کا غلام ہوں۔ پس جب طالب علم اپنے اُستاد کا حد درجہ احترام کرے گا، تب ہی اسے علم کی بیش قیمت دولت حاصل ہوگی۔ اگر طالب ِعلم بدخواہ اور بے ادب ہے اور اپنے استاد کیلئے تکلیف کا باعث ہے تو وہ علم کی برکت سے محروم ہی رہے گا اور برابر کوششوں کے باوجود علم کی دولت سے متنفع نہیں ہوسکتا۔ ایک شاعر نےخوب کہاہے
ان المعلّم والطبیب کلاھما لا ینصحان اذا ھما لم یکرما
فاصبر لدائک ان جفوت طبیبہ واقنع بجھلک ان جفوت معلما
معلّم اور طبیب کی جب تک توقیر و تعظیم نہ کی جائے وہ خیر خواہی نہیں کرتے۔ بیمارنے اگر طبیب کیے ساتھ بدعنوانی کی تو اس کو ہمیشہ بیماری ہی پر قائم رہنا پڑے گا اور اگر شاگرد نے اپنے استاد کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو وہ ہمیشہ جاہل ہی رہے گا۔
اسلام نے استاد کے بہت سے حقوق متعین کئے ہیں جن کا مختصر جائزہ پیش ہے
استاد کا شاگرد پر پہلا حق یہ ہے کہ وہ اپنے استاد کے احسان کو تازندگی یاد رکھے اور اس کے حکم سے سرتابی نہ کریں استاد کا درجہ والد سے کسی طرح بھی کم نہیں کیونکہ استاد اس کی روحانی اور ذہنی تربیت کا ذمہ دار ہوتا ہےاستاد اس بات کا حق رکھتا ہے کہ شاگرد کو اگر وہ اشارۃ بھی کوئی بات کہے تو وہ اس کے حکم کی تعمیل کرے
استاد کا اپنے شاگردوں پر دوسرا یہ حق ہے کہ وہ اس کی موجودگی میں آداب مجلس کا خیال رکھیں یہ آداب شاگرد کو مجلس نبویﷺ سے سیکھنے چاہیئں کیونکہ آپ ﷺ کا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کیساتھ ایک رشتہ استاد اور شاگرد کا بھی تھا آپ ﷺ کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ اپنی آواز کو نبی ﷺ کی آواز سے اونچا مت ہونے دو اور ان سے زور زور سے باتیں مت کیا کرو جیسے تم آپس میں کرلیا کرتے ہو.. الحجرات
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں ، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے استاد کی آواز سے اپنی آواز کو اونچا کرنا صریحا ناشائستگی ہے
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور ﷺ کی مجلس میں نہایت ادب کیساتھ بیٹھتے تھے ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ ﷺ کی محفل میں یوں بیٹھتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھتے ہیں کہ ذرا سی حرکت پر اڑ جائیں گے ،
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے استاد کی مجلس میں نہایت ادب اور خاموشی سے بیٹھ کر اس کی بات سنیں ، بیچ میں نہ ٹوکیں ۔ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو گفتگو کے بعد سوال کریں،
استاد کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے اس کی بات کو توجہ سے سنے ۔ اس کے سامنے زیادہ بولنا بے ادبی ہے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادہ کو نصیحت کی استاد کی صحبت میں خود بولنے سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کرنا

استاد کا شاگرد پر تیسرا حق یہ ہے کہ اس کی عزت اور تعظیم کی جائےاحترام میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب استاد کمرے میں داخل ہو تو سب طلبہ اس کے احترام میں کھڑے ہوجائیں اور استاد کو سلام کہے اور استاد کو بھی چاہیئے کہ وہ سلام کا جواب بہتر انداز میں ادا کرے اور جب تک استاد تشریف نہ رکھے بچے بھی نہ بیٹھیں مکتب کے باہر بھی اگر یہ صورت پیدا ہو تو طالب علم کو استاد کی عزت ادب و احترام اسی طرح کرنا چاہیئے استاد کسی حیثیت کا ہو اسے حقیر تصور نہ کیا جائے
استادوں کے سامنے عاجزی برتنا اور ان کا ادب کرنا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علم حاصل کرو علم کیلئے متانت اور وقار پیدا کرو جس سے تعلیم حاصل کرو اس سے خاکساری برتو
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ بوڑھے مسلمان اور عالم حافظ قرآن بادشاہ عادل اور استادوں کی عزت کرنا تعظیم خدا وندی میں داخل ہے
ابن وہاب ؒ کہا کرتے تھے امام مالک ؒ کے ادب سے مجھے جو کچھ ملا علم سے اتنا نہیں ملا
ایک مرتبہ امام احمد ؒ کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اثنائے گفتگو میں ابراہیم بن طحمان ؒ کا ذکر نکل آیا ان کا نام سنتے ہی امام احمد ؒ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ یہ نازیبا بات ہوگی کہ بڑوں کا نام لیا جائے اور ہم ٹیک لگاکر بیٹھے رہیں
امام ربیع ؒ فرماتے ہین کہ اپنے استاد امام شافعی ؒ کی نظر کے سامنے مجھ کو کبھی پانی کی جرات نہ ہوئی امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ امام مالک ؒ کے سامنے میں ورق بھی آہستہ الٹتا تھا کہ اسکی آواز ان کو سنائی نہ دے
بغیر اجازت استاد سے بات نہ کرے اور اس کے سامنے بلند آواز سے نہ بولے اس کے آگے نہ چلے اس کے بیٹھنے کی جگہ پر نہ بیٹھے ، اس کی منشا معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہے ۔ اور اس کے مطابق عمل کرے اور اگر کسی وقت استاد کی طبعیت مکدر ہو تو اس وقت اس سے کوئی بات نہ پوچھے ، کسی اور وقت دریافت کرلے ، استاد کو دستک دے کر نہ بلائے بلکہ اس کے نکلنے کا انتظار کرے.. تعلیم المتعلم
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اصحاب رسول اللہ ﷺ میں انصار کے پاس سے مجھے زیادہ علم ملا ، میں ان کے دروازے پر دوپہر کی گرمی میں پڑا رہتا تھا ۔ حالانکہ اگر میں چاہتا تو عہ مطلع ہونے پر فورا نکل آتے مگر مجھے ان کے آرام کا خیال رہتا تھا جب وہ باہر آتے تو اس وقت میں ان سے دریافت کرتا ۔
حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحبؒ کے بارے میں متعدد حضرات نے بیان کیا کہ کوئی بات دریافت کرنی ہوتی یا کتاب کا مضمون سمجھنا ہوتا تو حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے مکان کے دروازے پر جاکر بیٹھ جاتے جب گھر سے باہر نکلتے تو اس وقت دریافت کرتے ، اور یہ تقریبا روزانہ ہی کا معمول تھا ... آداب المتعلمین

طالب ِعلم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسباق میں غیر حاضری سے اجتناب کرے، ناغہ کرنے سے اس کے علم واستعداد میں کمی آئے گی۔ نتیجتاًلوگ اس کے استاد ہی کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے، چنانچہ اپنے اساتذہ کو الزام آنے سے بچانا بھی استاد کے حقوق میں سے ہے۔ پابندی سے حاضری کے علاوہ کلاس روم میں توجہ اور دھیان سے سبق سننا اور یاد کرنا طالب علم کی بڑی اہم ذمہ داری ہے۔ مزید برآں یہ اُس پر استاد کا حق ہے۔
اگر سبق سمجھ میں نہ آئے تو اُستاد سے پوچھ لینا طالبِ علم کی ذمہ داری ہے۔رسول اللہﷺنے فرمایا: فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِّيِ السُّؤَالُ یقیناً (علم کی) محتاجی کا علاج سوال کرنے میں ہے۔یہ بھی طالب ِعلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ محترم استاد کو عام انسانوں کی طرح انسان ہی سمجھے جس سے غلطی کا سرزد ہوناعین ممکن ہے۔
استاد کی سختی کو برداشت کرنا بلکہ نعمت سمجھنا
استاد کی سختی کو برداشت کرے۔ اسکی برائی سےاجتناب کرے،اسکےعیبوں کی پردہ پوشی کرے اور خوبیوں کو اُجاگر بیان کرے۔ فضول اور وقت ضائع کرنے والے سوالات سے پرہیز کرے۔ طالب ِعلم یہ بھی یاد رکھے کہ غلطی پر استاد کا خفا ہونا ایک فطری چیز ہے، لہٰذا طالب علم اُستاد کے غصے کو محسوس نہ کرے۔بلکہ یہ سمجھے کہ اُستادکا میری غلطی پر ناراض ہونا خود میرے ہی لیے مفید ہے۔
جناب رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے لقطہ (گری ہوئی چیز ) کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کا سر بند اور ظرف پہچان کر ( مالک تک پہنچادے) اس سائل نے کہا گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے ؟؟ اس سوال پر آپ ﷺ پر غصہ کے آثار نمودار ہوئے حتی کہ رخسار مبارک سرخ ہوگیا ، آپ نے فرمایا تجھے اس سے کیا کام ہے ؟ اس کے ساتھ اس کی مشک ہے اور اس کے موزے پانی ( کے گھاٹ پر ) جاکر پانی پیتا ہے اور درختوں سے چارہ کھاتا ہے (بخاری )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی بے ڈھنگے سوال پر استاد غصہ کرے تو شاگرد کو چاہیئے کہ اس کو گوارہ کرے مکدر نہ ہو جس طرح صحابی نے برا نہیں مانا ، ،، اصلاح انقلاب ص280
اس سے ایک اور بات نکل آئی وہ یہ کہ بعض طلبہ استاذوں کی شکایت کرتے ہیں کہ بڑے سخت ہیں تو معلوم ہوگیا کہ یہ سنت ہے کہ بے موقع بات پر غصہ کیا جائے چنانچہ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں جس شخص کو غصہ دلانے کے باوجود غصہ نہ آئے وہ حمار ہے معلوم ہوا کہ جس کے اندر غیرت و غصہ وحمیت سرے سے موجود ہی نہ ہو وہ انتہائی ناقص ہے
پس اگر استادشاگرد کی کسی بیکار بات بےڈھنگے پن بے ادبی بدذوقی عدم سعی تحصیل علم یا غلطی پر غصے میں آجائے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں انسان ہونے کے ناطے جیسا کہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کو بھی غصہ آیا اگر استاد غصہ ہوکر تنبیہ کریں یا طمانچہ رسید کریں ۔ توسعادت مند طالب علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے مکرم اُستاد کی سخت باتیں بھی چپ چاپ ادب کے ساتھ سن لے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے اور ان سختیوں کو برداشت کریں استاد کی شکایت کرنے سے گریز کرنا چاہیئے کیونکہ شکایت کرنے کے بعد استاد کو معلوم ہوگیا تو استاد کی توجہ اس سے ہٹ جائے گی جو علم کے فیوض و برکات کیلئے مانع ہے اور شاگرد استاد سے نفرت نہ کریں ورنہ اس سے بھی علم سے محرومی ہوگی ۔
امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا انسان پر اپنے استاد کی مدارت واجب ہے اس کی سختی کو برداشت کرے استاد کوئی اچھی بات بتائے یا کسی بری بات پر تنبیہ کرے تو اس کی شکر گذاری ضروری ہے جب وہ کوئی نکتہ بتائے تو تمہیں اگر وہ پہلے سے معلوم ہو جب بھی یہ ظاہر نہ کرو کہ مجھے پہلے سے معلوم ہے
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی کو انکے شامی استاد نے معمولی سی بات پر جو غلط فہمی پر مبنی تھی بہت زیادہ مارا تھا لیکن اس وقت اور اس کے بعد مولانا کے دل میں ذرا بھی تکدر نہ ہوا پھر عرب و عجم میں حضرت مولانا کا جو مقام ہوا اور اللہ پاک نے دین کی جو خدمت ان سے لی دنیا نے اس کو دیکھا
استاد کی شکایت بھی نہ کریں انشاء اللہ ان باتوں کا خیال رکھنے سے علم حاصل ہوگا جیسا کہ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ
نہ دانی کہ سعدی مکاں ازچہ یافت نہ ہاموں نوشت ونہ دریا شگافت
مجھے معلوم نہیں کہ سعدی نے مرتبہ کس چیز سے پایا نہ جنگل طے کئے نہ دریا پھاڑا
نجردی بخورد از بزرگان قفا خدا دادش اندر بزرگی صفا
بچپن میں بزرگوں کے طمانچے کھائے خدا نے اس کو بزرگی میں صفائی عنایت فرمائی
ہرآں طفل کو جور آموز گار نہ بیند جفا بیند از روزگار
ہر وہ بچہ جو استاد کا ظلم نہیں سہتا ہے زمانہ کا ظلم سہتا ہے
چواز گلبنے دیدہ باشی خوشی روا بار خارش کشی
جب تو نے پھولوں کی شاخ سے خوشی دیکھی مناسب ہے کہ تو اس کے کانٹے کا بوجھ برداشت کرے
نجردی درش زجر و تعلیم کن نہ نیک وبدش وعدہ وبیم کن
بچپن میں اس کو جھڑک اور علم سکھا اچھے اور برے کام کا وعدہ اور خوف دلا
شیخ سعدی ؒ کے اشعار سے معلوم ہوا کہ سختی سے فائدہ بھی ہے اور طلباء کیساتھ رفق یہ ہے کہ سختی کے موقع پر سختی کی جائے اور نرمی کے موقع پر نرمی کی جائے
شاگرد کو چاہیئے کہ غلطی ہونے پر خود استاد سے معافی مانگ لے استاد کو کبھی ناراض نہ کرنا چاہیئے اگر اس کی شان میں خدانخواستہ کوئی بے ادبی اور گستاخی ہوجائے تو فورا انتہائی عاجزی کیساتھ معافی مانگ لے اگر استاد کا دل مکدر ہوگیا تو اس سے فیض نہیں حاصل کرسکتا ایک بزرگ نے فرمایا اپنے اساتذہ کو برا نہ کہو ورنہ تمہارے تلامذہ تمہیں برا کہیں گے
اس لئے طلبہ کو چاہیئے کہ اساتذہ کی خدمت کریں اور استاد کی خدمت کو فلاح دارین کا ذریعہ سمجھےجو طلبہ اپنے اساتذہ کی خدمت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے طلبہ کو فارغ ہونے کے بعد دنیا و آخرت کی کامیابی عطا فرماتے ہیں جس سے ہزاروں انسانوں کو ہدایت نصیب ہوتی ہے
اللہ ہم سب کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 

No comments: